حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ

مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کا امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر سے تعلق تو شروع ہی سے ہوگا کہ حضرت ہمارے ملک ہی کی نہیں، بلکہ عالم اسلام کی عظیم شخصیت تھے اور تبلیغ دین، اشاعت علوم دینیہ، باطل فتنوں کے مقابلہ، علماے حق علماے دیوبند کے دفاع، مسلک احناف کی تائید اور امام ابو حنیفہ کی طرف سے معاندین کے رد میں آپ کی خدمات بہت نمایاں اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ حضرت کی انہی خدمات کے اعتراف کے لیے مفتی احمد الرحمنؒ کی خواہش تھی کہ ایک علمی سیمینار منعقد کیا جائے جس میں حضرت کی خدمات کا اعتراف اور تصانیف کا تعارف کراتے ہوئے حضرت کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جس میں حضرت کی خدمات میں اپنے مقالات پیش کریں اور علما و مشائخ کی موجودگی میں حضرت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت کو اعزازات سے نوازا جائے۔ مفتی احمد الرحمنؒ نے یہ کام مفتی جمیل ؒ کے سپرد کیا کہ اس پر کام کرو اور اس کی ترتیب بناؤ۔ مفتی صا حب ؒ نے حضرت کی تصانیف کا تعارف مرتب کرنے پر کچھ حضرات کو متوجہ بھی کیا تھا، مگر مفتی احمدالرحمن کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ابتدائی مراحل سے آگے نہ بڑھ سکا ۔

مفتی صاحب ؒ کی وفات کے کئی سال بعد مولانا محمد اسلم شیخو پوری نے حضرت سے وقت لیا اور حضرت کے اعزاز میں کراچی میں ایک مجلس کا اہتمام کیا اور مفتی احمد الرحمن کی خواہش کی تکمیل کی ایک صورت نکالی۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اگرچہ مولانا اسلم صاحب کی دعوت پر تشریف لائے اور آپ کا قیام جامعہ بنوریہ میں تھا، اس اعتبار سے مولانا اسلم صاحب حضرت کے میزبان تھے، مگر اس موقع پر مفتی جمیل ؒ نے اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اپنی اور اپنے احباب کی گاڑیوں سمیت صبح جامعہ بنوریہ حاضر ہوتے اور رات گئے تک حضرت کے ساتھ رہتے۔ حضرت کو تمام پروگراموں میں لے جاتے۔ ایک ایک دن میں کئی کئی پروگرام ہوتے۔ اس طرح مفتی جمیل ؒ صاحب کی دلچسپی اور ان کے ذوق و شوق کی وجہ سے پورے کراچی میں علمی مجالس منعقد ہوئیں اور تمام قابل ذکر مدارس میں حضرت کے پروگرام ہوئے۔ ہر صبح ناشتہ ایک جگہ ہوتا، ناشتہ کے بعد ایک جگہ اور گیارہ بجے دوسری جگہ پروگرام ہوتا۔ ظہر، عصر، مغرب، عشا ہر نماز کے بعد پروگرام ہوتے۔ درمیان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے تھوڑا وقت ملتا۔ اس تھوڑے سے وقت سے بھی فائدہ اٹھا کر کسی مدرسے میں حضرت کو لے جا کر دعا کراتے۔ ایک دن ظہر کے بعد کوئی پروگرام نہیں تھا۔ مفتی صاحب ؒ نے حضرت کو اگلے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت کچھ دیر آرام فرما لیں، عصر سے کچھ دیر قبل جانا ہے۔ حضرت مسکرائے اور فرمانے لگے: اچھا تمہاری لغت میں بھی آرام کا لفظ ہے؟ میں تو سمجھا تھا کہ تم آرام کے لفظ سے واقف ہی نہیں۔ 

جامعہ بنوریہ کی انتظامیہ نے حضرت کو بخاری شریف کی آخری حدیث کے درس کے لیے زحمت دی ۔ اس وقت بھی مفتی صاحبؒ نے حضرت کے متعدد پروگرام مختلف مدارس و مساجد میں رکھے۔ اسی اثنا میں مفتی صاحب ؒ نے حضرت پر زور دیا کہ آپ رمضان المبارک حرمین میں گزاریں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں کئی سال سے چھٹیوں کے ایام میں دورہ تفسیر پڑھاتا ہوں اور کبھی ناغہ نہیں کیا۔ دور دراز سے طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں، ان کا حرج ہوگا۔ مفتی صاحب ؒ نے اس پر آمادہ کر لیا کہ بیس رمضان المبارک سے قبل دورۂ تفسیر مکمل کرا دیں اور اس کے بعد عمرہ کے لیے تشریف لے جائیں۔ میں اس کے مطابق آپ کی ترتیب بنا لیتا ہوں۔ اس پر حضرت راضی ہو گئے۔ مفتی صاحب ؒ خود تو رمضان المبارک کے آغاز میں حرمین تشریف لے گئے اور حضرت کے ساتھ سفر کے لیے ایک ساتھی کو تیار کیا۔ حضرت کو جس تاریخ کو جدہ پہنچنا تھا، مفتی صاحب ؒ اس وقت مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ منورہ سے جدہ گئے، حضرت کو ائیر پورٹ سے لیا، عمرہ کرایا اور مدینہ منورہ حاضر ہو گئے۔ غالباً چار پانچ دن مدینہ منورہ میں رہے، اس کے بعد حضرت کی واپسی ہوئی۔ 

اسی طرح مفتی صاحب ؒ کا حضرت سے تعلق مضبوط اور قوی ہوتا چلا گیا۔ جب لاہور میں اقراکی شاخ قائم ہوئی تو لاہور حاضری کے موقع پر اکثر و بیشتر حضرت کی خدمت میں بھی حاضری دیتے۔ کئی مرتبہ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے ساتھ بھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن جب گوجرانوالہ میں اقرا کی شاخ کا آغاز ہوا تو گوجرانوالہ کثرت سے جانا ہوا۔ مفتی صاحب ؒ جب بھی گوجرانوالہ جاتے تو حضرت کی خدمت میں لازماً حاضری دیتے اور حضرت سے دعائیں لیتے۔ انہی دنوں میں حضرت نے ضعف اور بیماری کی وجہ سے مدرسہ نصرۃ العلوم جانا چھوڑ دیا تھا بلکہ کسی جگہ نہیں جاتے تھے حتیٰ کہ اپنی مسجد میں بھی صرف جمعہ کی نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ مفتی صاحب ؒ جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضری دیتے تو حضرت سے درخواست کرتے کہ حضرت دوبارہ سبق پڑھانا شروع کر دیں۔ حضرت معذرت کرتے ہوئے کہتے کہ حافظہ کمزور ہو گیا ہے، بات یاد نہیں رہتی، بینائی کمزور ہو چکی ہے، صحیح طرح مطالعہ نہیں کر سکتا، اس حالت میں سبق کا حق ادا نہیں ہوتا، بغیر مطالعہ کے سبق پڑھانا طلبہ کی حق تلفی ہے۔ نصرۃ العلوم کے ذمہ داران نے بہت کوشش کی کہ حضرت کسی طرح مدرسہ تشریف لائیں، گھر سے باہر نکلیں، مگر حضرت آمادہ نہ ہوئے۔ بہت سے حضرات نے کوشش کی مگر حضرت گھر سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ گوجرانوالہ میں اقرا کی سالانہ تقریب تھی۔ مفتی جمیل صاحب نے فرمایا کہ اس تقریب کے مہمان خصوصی مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت تو کہیں جاتے ہی نہیں، ہماری تقریب میں کیسے آئیں گے؟ مفتی صاحب ؒ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ حضرت تقریب میں تشریف لائیں گے۔ مفتی صاحب ؒ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نہ جانے کس ادا سے حضرت کی خدمت عالیہ میں درخواست پیش کی کہ حضرت کو آمادہ کر لیا۔ نہ صرف یہ کہ تقریب میں آنے کے لیے حضرت تیار ہوئے بلکہ بغرض علاج کراچی آنے کے لیے بھی حضرت کو راضی کر لیا۔ 

دعوت نامہ پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت کا نام تحریر کیا۔ جس نے بھی دعوت نامہ میں حضرت کا نام دیکھا، دیکھتے ہی کہا کہ یہ اقرا والوں نے یوں ہی لکھ دیا ہے، حضرت نہ کہیں جاتے ہیں اور نہ حضرت کی صحت اس کی اجازت دیتی ہے ۔ اقرا کے ایک مخلص رفیق داؤد ڈار صاحب تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے گوجرانوالہ آ رہے تھے۔ گوجرانوالہ میں داخل ہوتے ہی ایک ہوٹل پر چائے پینے کے لیے رکے۔ اس کے کاؤنٹر پر دعوت نامہ رکھا ہوا تھا۔ جب اس ہوٹل والے کو یہ معلوم ہوا کہ وہ اقرا کی تقریب میں جا رہے ہیں تو اس نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہی نہیں کہ حضر ت اس تقریب میں تشریف لائیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی اقرا والوں نے حضرت کا نام کیوں لکھا؟ مگر مفتی صاحب ؒ کا اخلاص تھا کہ حضرت تقریب میں تشریف لائے، مختصر بیان فرمایا اور دعا فرمائی۔ لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حضرت تشریف لائے ہیں ۔ لوگوں کاحال یہ تھا کہ حضرت کو دیکھ کر بے تاب ہو گئے۔ قریب تھا کہ تقریب کا نظم درہم برہم ہو جاتا، مجمع کو قابو کیا ۔ جوں ہی تقریب ختم ہوئی، لوگ دیوانہ وار حضرت پر ٹوٹ پڑے۔ ہر شخص کی خواہش تھی کسی طرح حضرت سے مصافحہ ہو جائے۔ یہیں سے مولانا محمد نواز بلوچ، لقمان اللہ میر اور ڈاکٹرفضل الرحمن سے مفتی صاحب ؒ کا تعارف ہوا ۔ ان حضرات کو جب مفتی صاحب ؒ کے پروگرام کا پتہ چلا تو یہ حضرات بہت خوش ہوئے اور ڈاکٹر فضل الرحمن نے مفتی صاحب ؒ سے کہا: ہم تو چاہتے ہیں کہ حضرت گھر سے باہر نکلیں اور دوبارہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمائیں۔ 

مفتی صاحب ؒ نے حضرت اور مذکورہ بالا تینو ں حضرات کی کراچی آمد کا انتظام کیا، حضرت کے لیے اپنے گھر میں ایک کمرہ خاص طور پر تیار کروایا، بیت الخلا میں دونوں طرف دو لکڑیاں نصب کروائیں تاکہ حضرت اٹھنے بیٹھنے میں اس کا سہارا لے سکیں۔ سیڑھیو ں پر ڈھلان بنوائی تاکہ وہیل چیئر لانا لے جانا آسان ہو۔ حضرت جب اپنے خدام کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو مفتی صاحب ؒ اپنے رفقا کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ ائیر پورٹ سے سیدھا ہسپتال لے گئے۔ دماغ اور فالج کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبداللہ سے تفصیلی معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق صبح دس بجے کے قریب فزیوتھراپی کے لیے روزانہ ہسپتال لے جاتے۔ صبح سیر کرانے کے لیے سمندر کے کنارے جاتے۔ اس موقع پر مفتی صاحب ؒ نے حضرت کی جو خدمت کی، وہ صرف اور صرف مفتی صاحب ؒ ہی کا حصہ ہے۔ اس موقع پر مفتی صا حب ؒ نے تمام اسفار ترک کر دیے اور اپنے آپ کو حضرت اقدس کے لیے وقف کر دیا۔ 

جب ائیرپورٹ سے گھر جا رہے تھے تو مولانا محمد نواز بلوچ گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ خود کلامی کے انداز میں باربار یہ کہہ رہے تھے: ’’حضرت کا اس حالت میں اتنی دور سفرکرکے آنا بڑی بات ہے‘‘۔ ساتھ ساتھ وہ نفی کے انداز میں سر بھی ہلا رہے تھے۔ ان کی بات سن کر میں دل میں کہنے لگا: ابھی آگے دیکھیے، مفتی صاحبؒ حضرت اقدس کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں اور یہی ہوا۔ مفتی صاحب ؒ نے حضرت اقدس کو تمام مدارس میں گھمایا اور حضرت سے بیان بھی کروائے۔ خود مفتی صاحب ؒ کا گھرایک مدرسہ اور خانقاہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ عصر کے بعد علما وطلبہ کا ایک جم غفیر ہوتاجس سے حضرت خطاب فرماتے۔ روانگی سے ایک دن قبل مفتی صاحب ؒ کے گھر میں خواتین کا خاصا مجمع ہو گیا تھا۔ ان سے بھی حضرت نے خطاب فرمایا۔ مفتی صاحب ؒ کا بس نہیں چلتا تھاکہ کس طرح حضرت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں اور حضرت صرف چلنے ہی نہیں دوڑنے لگیں۔ اس کے بعد کئی مرتبہ حضرت اقدس کو کبھی علاج کی غرض سے کبھی ختم بخاری کی نیت سے کراچی لائے۔ مفتی صاحب ؒ نے حضرت کی بے مثال خدمت کر کے اپنی عاقبت سنواری اور حضرت کی خو ب دعائیں لیں۔ مفتی صاحب ؒ کی اس خدمت سے متاثر ہو کر ہی تو حضرت نے فرمایا تھا: ’’ایسی خدمت میر ی اولاد نے نہیں کی جو خدمت مفتی صاحب ؒ نے کی۔ مفتی صاحب ؒ مجھے اولادسے زیادہ عزیز ہیں۔ ‘‘

مفتی صاحب ؒ نے اسی بیماری کی حالت میں حضرت اقدس کوعمرہ کے لیے راضی کرلیا جو بظاہر ناممکن سی بات تھی۔ نہ صرف یہ کہ حضر ت عمر ے کے لیے گئے بلکہ رمضان کا پورا مہینہ حرمین میں گزارا۔ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے، حضرت روزانہ ایک عمرہ کرتے رہے۔ ایک دن حضرت نے فرمایا کہ میر اخیال تھا کہ میں ایک عمرہ بھی شاید مشکل سے کر سکوں، مگر مفتی صاحب ؒ تو روز عمرہ کرا ر ہے ہیں۔ یہ مفتی صاحب ؒ کی برکت اور ہمت ہے۔ایک دن عمرہ سے فارغ ہوکر حضرت اپنے کمرہ میں تشریف فرماتھے۔ موڈ اچھا تھا۔ مفتی صاحب ؒ فرمانے لگے، حضرت! ان شاء اللہ حج بھی کرنا ہے۔ ابھی سے نیت کر لیں۔ حضرت فرمانے لگے: مفتی صاحب ؒ ! حج بہت مشکل ہے۔ میں کیسے حج کروں گا؟ مفتی صاحب ؒ نے عرض کیا: حضرت ! اگر صحت ایسی ہی رہی تو حج کریں گے؟ حضرت نے فوراً ہا ں کر دی تو حج پر بھی حضرت کو لے گئے اور الحمدللہ حج کے تمام ارکان احسن طریقے سے پورے کیے۔ عرفات میں حضرت سے بیان بھی کروایا۔ 

اگلے سال پھر حضرت کو ان کے صاحبزادے کے ساتھ حج کے لیے روانہ کیا۔ حضرت قافلہ کے ساتھ پہلے چلے گئے تھے، مفتی صاحب ؒ بعد میں پہنچے۔ رفقا بتاتے ہیں کہ اس حج کے موقع پر حضرت کو ضعف بہت زیادہ تھا۔ بستر سے اٹھانا، بٹھانا بھی بہت مشکل ہو رہا تھا۔ کھانا بھی بڑی مشکل سے حضرت کو بستر پر ہی کھلایا جاتا تھا۔ حضرت کو مفتی صاحب کا انتظا ر تھا۔ جوں ہی مفتی صاحب ؒ مکہ مکرمہ پہنچے، حضرت کی خدمت میں حاضری دی۔ مفتی صاحب کودیکھتے ہی حضرت خوش ہوگئے اور اپنی ساری بیماری بھول گئے۔ لقمان اللہ میر صاحب کہتے ہیں : ہم حضرت کی وجہ سے پریشان تھے کہ اس حالت میں حج کیسے کرائیں گے؟ اب جو حضرت کو دیکھا تو احرام باندھے مفتی صاحب ؒ کے ساتھ عمرہ کے لیے تیار ہیں۔ ہم حیران رہ گئے کہ یااللہ! یہ کیا ماجرا ہے؟ یا تو حضرت خود سے کروٹ بھی نہیں لیتے تھے او ر اب مفتی صاحب کو دیکھتے ہی ایسے ہشاش بشاش کہ عمرہ کے لیے احرام باندھے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ مفتی صاحب ؒ کے اخلاص، ان کی محنت اورخدمت کا نتیجہ ہے۔ 

حضرت اقدس سے مفتی صاحب ؒ کا تعلق اتنا بڑھاکہ تقریباً ہر ہفتہ عشرہ میں ایک مرتبہ ضرورحضر ت کی خدمت میں حاضری دیتے۔ حضرت کی خیریت دریافت کرتے، دواؤں او ر کھانے وغیرہ کے بارے میں پوچھتے۔ حضرت نے کھانا بہت کم کر دیاتھا۔ مفتی صاحب ؒ حضرت کو کھانے پر راضی کرتے۔ حضرت کے صاحبزادے جب کھانے پینے کے بارے میں پریشان ہوتے تو مفتی صاحب ؒ کو فون کرتے کہ آپ حضرت اقدس سے بات کریں اور حضرت کو راضی کریں کہ حضرت کھانا تناول فرمالیں۔ حضرت، مفتی صاحب ؒ کی بات کونہیں ٹالتے تھے۔ شہادت سے تین دن پہلے مفتی صاحب ؒ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خیریت دریافت کی۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے کہا: حضرت کھانا نہیں کھاتے، ضعف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، حضرت طاقت کا انجکشن ہی لگوا لیں تاکہ ضعف میں کمی آئے۔ مفتی صاحب ؒ نے انجکشن لگوانے کے لیے کہا تو حضرت آمادہ ہوگئے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم کئی دن سے کوشش کر رہے تھے، لیکن حضرت راضی نہیں ہو ئے۔ مفتی صاحب ؒ نے ایک مرتبہ کہا تو حضرت فوراً مان گئے۔ یہ بزرگوں کاحضرت پر اعتماد اور ناز تھا۔ 

مفتی صاحب کی شہادت سے حضرت کو بہت زیادہ صدمہ اور رنج ہوا۔ مفتی صاحب ؒ کی شہادت پر حضرت بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ مفتی صاحب ؒ حضرت کو ہر وقت خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ مفتی صاحب ؒ کی خواہش تھی کہ حضرت ہر وقت بستر پر نہ رہیں بلکہ متحرک رہیں، اس لیے مفتی صاحب ؒ حضرت کو مختلف پروگراموں میں لے جاتے۔ اس طرح کاایک طویل سفر مفتی صاحب ؒ نے کیا اور حضرت کو گوجرانوالہ سے پنڈی لے گئے۔ وہاں سے کلر سیداں، کہوٹہ میں اقرا کی شاخوں کاافتتاح کروایا۔ وہاں سے باغ آزاد کشمیر میں دیوبند کانفرنس میں پہنچے۔ وہاں سے پشاور، دیرمیں اقرا کی شاخوں کا معائنہ کرتے ہوئے چترال پہنچے۔ وہاں شاخوں کا افتتاح کیا۔ چترال سے شندور ٹاپ سے ہوتے ہوئے گلگت کے علاقے یاسین پہنچے۔ گلگت کی مختلف شاخوں کامعائنہ کیا، اسکردو گئے اور وہاں سے چلاس، کوہستان سے ہوتے ہوئے حضرت کے گاؤں پہنچے۔ یہ طویل ترین سفر مکمل طور پر گاڑیوں میں کیا۔ حیرت ہوتی کہ حضرت نے اتنا طویل سفر کیسے کیا؟ مگر مفتی صاحب ؒ کی ہمت اور عزم اور حضر ت کی روحانی برکت کی بدولت ہی یہ سفر ممکن ہوسکا۔ ا س سفر سے واپسی پر حضرت نے فرمایا: جمیل جن نہیں، ’’دیو‘‘ ہے۔ اس سے پہلے حضرت ازراہ تفنن مفتی صاحب کو ’’جن‘‘ کہا کرتے تھے۔ 

(بشکریہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ اشاعت خاص بیاد مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ)

آپ کے لیے تجویز کردہ مضامین